HOME
UPLOAD
WALLET
BLOG
ARRIVALS
CATEGORIES >
Indian Literature
Hindi
पत्रिका
कहानियां
उपन्यास
कविता
ग़ज़ल/शायरी
बाल साहित्य
यात्रा वृतांत
लेख
आलोचना
नाटक
संस्मरण
अनूदित साहित्य
व्यंग्य
जीवनी
सिनेमा
भाषा विज्ञान
मीडिया
साक्षात्कार
शब्दकोश
इतिहास
विज्ञान
Urdu
Punjabi
Kannada
Marathi
Awadhi
Bhojpuri
Maithili
English
Class
Notes(BA,MA)
Study Materials
IIT-JEE
CPT
Board Exams
IES/Gate
Biotechnology
Research Papers
Others
Engineering
Computer Science
Electronics
Communication
Interview Questions
English
Punjabi
Kannada
Urdu
Marathi
Awadhi
Bhojpuri
Maithili
Management
Analytics/GMAT Entrance
Entrepreneurship
Marketing/Finance
BIRD
HOME
UPLOAD
WALLET
BLOG
ARRIVALS
Bookrack
(0)
LogIn |
SignUp
Categories
Indian Literature
Hindi
पत्रिका
कहानियां
उपन्यास
कविता
ग़ज़ल/शायरी
बाल साहित्य
यात्रा वृतांत
लेख
आलोचना
नाटक
संस्मरण
अनुदित साहित्य
व्यंग्य
जीवनी
सिनेमा
भाषा विज्ञान
मीडिया
साक्षात्कार
शब्दकोश
इतिहास
विज्ञान
Urdu
Punjabi
Kannada
Marathi
Awadhi
Bhojpuri
Maithili
English
Notes(BA,MA)
Study Materials
IIT-JEE
CPT
Board Exams
IES/Gate
Biotechnology
Research Papers
Others
Engineering
Computer Science
Electronics
Communication
Interview Questions
English
Punjabi
Kannada
Urdu
Marathi
Awadhi
Bhojpuri
Maithili
Management
Analytics/GMAT Entrance
Entrepreneurship
Marketing/Finance
Bankers Institute Of Rural Development
My eBooks
من کی آواز
Zahratanveer
Saturday, June 12, 2021
Author:
Zahra tanveer
Publisher:
Fiction house
Price:
400
Release Date:
3/18/2021
من کی آواز
سید زیدی صاحب
کہانی کہنے کا فن انسان کے بولنے کا ہنر سیکھنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا ۔
دنیا کی پہلی کہانی کونسی تھی؟ کس زبان کی تھی؟ داستان گو کون تھا؟ سننے والے کا نام کیا تھا؟
یہ سب انسانی تاریخ کے کہرے میں چھپا ہے ۔۔
اردو ادب میں میر امن کے باغ و بہار ۔۔ محمد حسین جاہ کے طلسم ہوشربا اور رجب علی بیگ سرور کے فسانہ عجائب سے ہوتے ہووئے سجاد حیدر یلدرم کے اولیں افسانوں سے پچھلی صدی کی تیسری دھائی میں ہونے والی ادبی تحریکوں کے نتیجے میں تفریحی جمالیاتی افسانے سے سماجی و افادی افسانوں تک ۔۔
یا یوں کہیئے کہ
منشی پریم چند کے کفن سے شروع ہو کر غلام عباس کے آنندی تک کرشن چندر کے پالنا سے بیدی کے بھولا قاضی عبدالستار کے پیتل کا گھنٹہ سے لیکر شوکت صدیقی کے جھیلوں کی سرزمین تک ۔۔
احمد ندیم قاسمی کے کپاس کا پھول سے اشفاق احمد کے گڈریا تک
عصمت چغتائی کا گیندا اور منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ ۔۔
رام لال سے آغا بابر تک سینکڑوں پڑاو ہیں ۔۔ اردو ادب کے آسمان پر ایک کہکشاں ہے جو افق تا افق جگمگا رہی ہے کچھ ستارے بہت روشن ہیں اور کچھ رہ نما ہیں ۔۔
یہ زہرا تنویر صاحبہ کی کہی ہوئی کہانیوں کا مجموعہ ہے اس کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے پروفیسر رشید احمد صدیقی صاحب کی ایک بات جو انہوں نے پطرس بخاری صاحب کی مزاحیہ تحریریں پطرس کے مضامین کا دیباچہ پڑھ کر کہی تھی کہ جو مزاح نگار اتنا خوبصورت دیباچہ لکھ سکتا ہے اس کے مضامین اردو ادب میں کیا گل فشانی کریں گے؟
افسانوں کی اس کتاب کے عنوان کو دیکھ کر بالکل یہی خیال میرے ذہن میں آیا کہ جب نام اتنا خوبصورت ہے تو کہانیاں بھی اپنے دامن میں نجانے کن کن کرداروں کے من کی بات لئے ہوں گی اور سچ جانیئے تو ہمارے گھروں میں اور معاشرے میں ارد گرد بکھرے یہ کردار اپنے من کی بات کہنا چاہتے ہیں لیکن بوجوہ کہہ نہیں پاتے ۔۔
من کی بات کہنے والوں میں شامی بھیا کا کردار ہے جو زندگی کا پہیہ چلانے کے لئے کچھ بھی کرنے میں یقین رکھتا ہے ۔۔ وہ مشکلات سے ہار نہیں ماننا چاہتا لیکن زندگی سے ہار جاتا ہے اور پھر سماج کا وہ دوغلا چہرہ سامنے آتا ہے جہاں زندہ کو اس کی زندگی میں نظر انداز کرکے مرنے کے بعد اس کے نام پہ دیگیں چڑھائی جاتی ہیں ۔۔
زہرا تنویر نے اس کہانی کے آخر میں ایک جھنجوڑنے والا اختتام لکھا ہے کہ
"وہ آدمی جس کی زندگی دو وقت کی روٹی کی فکر میں گزر گئی اس کی روح کو ختم کے کھانے کی خوشبو جا رہی تھی "
زہرا تنویر صاحبہ سادہ لفظوں میں کہانی کہنے کا ہنر جانتی ہیں ۔۔ ان کا مشاہدہ کمال کا ہے۔
ان کے افسانوں میں بے جا طوالت یا قاری کو متاثر کرنے والی لفاظی نظر نہیں آتی ۔۔
آنے والے وقت میں اردو افسانہ پڑھنے والے ان سے بہت سی توقعات رکھتے ہیں
Opinion Required
400 characters Limit
Popular Tags
Banking
Technology
Politics
Literature
Cinema
Story
Cricket