من کی آواز

  • Author: Zahra tanveer
  • Publisher: Fiction house
  • Price: 400
  • Release Date:3/18/2021
من کی آواز 
سید زیدی صاحب
کہانی کہنے کا فن انسان کے بولنے کا ہنر سیکھنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا ۔
دنیا کی پہلی کہانی کونسی تھی؟ کس زبان کی تھی؟ داستان گو کون تھا؟ سننے والے کا نام کیا تھا؟

یہ سب انسانی تاریخ کے کہرے میں چھپا ہے ۔۔

اردو ادب میں میر امن کے باغ و بہار  ۔۔ محمد حسین جاہ کے طلسم ہوشربا  اور رجب علی بیگ سرور کے فسانہ عجائب سے ہوتے ہووئے سجاد حیدر یلدرم کے اولیں افسانوں سے پچھلی صدی کی تیسری دھائی میں ہونے والی ادبی تحریکوں کے نتیجے میں تفریحی  جمالیاتی افسانے سے  سماجی و افادی افسانوں تک ۔۔

 یا یوں کہیئے کہ 
منشی پریم چند کے کفن  سے شروع ہو کر غلام عباس کے آنندی تک کرشن چندر کے پالنا سے بیدی کے بھولا  قاضی عبدالستار کے پیتل کا گھنٹہ سے لیکر شوکت صدیقی کے جھیلوں کی سرزمین تک ۔۔
احمد ندیم قاسمی کے کپاس کا پھول سے اشفاق احمد کے گڈریا تک 
عصمت چغتائی کا گیندا اور منٹو کا ٹوبہ ٹیک سنگھ ۔۔

رام لال سے آغا بابر تک سینکڑوں پڑاو ہیں ۔۔ اردو ادب کے آسمان پر ایک کہکشاں ہے جو افق تا افق جگمگا رہی ہے  کچھ ستارے بہت روشن ہیں اور کچھ رہ نما ہیں ۔۔

یہ زہرا تنویر صاحبہ کی کہی ہوئی کہانیوں کا مجموعہ ہے اس کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے پروفیسر رشید احمد صدیقی صاحب کی ایک بات جو انہوں نے پطرس بخاری صاحب کی مزاحیہ تحریریں  پطرس کے مضامین کا دیباچہ پڑھ کر کہی تھی کہ جو مزاح نگار اتنا خوبصورت دیباچہ لکھ سکتا ہے اس کے مضامین اردو ادب میں کیا گل فشانی کریں گے؟

افسانوں کی اس کتاب کے عنوان کو دیکھ کر بالکل یہی خیال میرے ذہن میں آیا کہ جب نام اتنا خوبصورت ہے تو کہانیاں بھی اپنے دامن میں نجانے کن کن  کرداروں کے من کی بات لئے ہوں گی  اور سچ جانیئے تو ہمارے گھروں میں  اور معاشرے میں  ارد گرد بکھرے یہ کردار اپنے من کی بات کہنا چاہتے ہیں لیکن بوجوہ کہہ نہیں پاتے ۔۔

من کی بات کہنے والوں میں شامی بھیا کا کردار ہے جو زندگی کا پہیہ چلانے کے لئے کچھ بھی کرنے میں یقین رکھتا ہے ۔۔ وہ مشکلات  سے ہار نہیں ماننا چاہتا لیکن زندگی سے ہار جاتا ہے اور پھر سماج کا وہ دوغلا چہرہ سامنے آتا ہے جہاں زندہ کو اس کی زندگی میں نظر انداز کرکے مرنے کے بعد اس کے نام پہ دیگیں چڑھائی جاتی ہیں ۔۔

 زہرا تنویر نے اس کہانی کے آخر میں ایک جھنجوڑنے والا اختتام لکھا ہے کہ 
"وہ آدمی جس کی زندگی دو وقت کی روٹی کی فکر میں گزر گئی اس کی روح کو ختم کے کھانے کی خوشبو جا رہی تھی "

زہرا تنویر صاحبہ سادہ لفظوں میں کہانی کہنے کا ہنر جانتی ہیں ۔۔ ان کا مشاہدہ کمال کا ہے۔
ان کے افسانوں میں بے جا طوالت یا قاری کو متاثر کرنے والی لفاظی نظر نہیں آتی ۔۔
آنے والے وقت میں اردو افسانہ پڑھنے والے ان سے بہت سی توقعات رکھتے ہیں